Thursday, December 26

پاکستان کا بڑھتا ہوا غیر متعدی امراض (این سی ڈی)کا بحران: ماہرین نے وبا کو روکنے کے لیے فوری پالیسی اقدامات پر زور دیا

Press release: PANAH's struggle to stop the explosion of atomic bomb of no -communicable diseases. "Pakistan’s Rising NCD Crisis: Experts Urge Immediate Policy Actions to Curb Epidemic" Islamabad: Pakistan is witnessing a significant un epidemiological shift, with non-communicable diseases (NCDs) now accounting for over 60% of deaths annually, according to the World Health Organization (WHO). This alarming trend was the focal point of a national dialogue organized by the Pakistan National Heart Association (PANAH) in collaboration with the Ministry of National Health Services, Regulations, and Coordination. The event, held at the Ministry’s office, was chaired by Dr. Malik Mukhtar Ahmed Bharath, Advisor to the Prime Minister on Health, and attended by health professionals, ministry officials, civil society organizations, and media representatives. The dialogue underscored the dire health crisis Pakistan faces, with diabetes, cardiovascular disease (CVD), obesity and other NCDs at critical levels. Pakistan now ranks first globally in diabetes prevalence, with the number of adults living with diabetes rising from 6.3 million in 2011 to an estimated 36 million in 2024, alongside one million pre-diabetics. Diabetes claims more than 1,100 lives daily in the country. Cardiovascular disease accounts for 55% of NCD-related deaths, translating to approximately 450,000 fatalities annually. Obesity is also on the rise, with 40% of the population classified as overweight or obese, and the WHO estimating Pakistan’s adult obesity rate at 28%. Speaking at the event, Dr. Malik Mukhtar Ahmed Bharath emphasized the urgent need for preventive measures to curb the escalating NCD burden. “Non-communicable diseases are rising at an alarming rate. Dietary risk factors are a key driver of this crisis, which can be mitigated by implementing Front-of-Pack Warning Labels (FOPWL) on ultra-processed products,” he stated. All ministries, NGOs and segments of society shall come together to tackle this public health issue. Major General (R) Masud Ur Rehman Kiani, President of PANAH, provided a detailed briefing on the modifiable risk factors for NCDs, particularly the harmful effects of ultra-processed foods. “The government must take decisive policy actions to reduce the consumption of unhealthy foods. Enacting FOPWL will empower consumers to make healthier choices,” he asserted. He said that we are thankful to ministery of Health that they have always stood with PANAH. We have worked closely with the ministry of health in increasing taxes on sugary drinks and obtained policy victories. Today we request ministry of health to take lead role on enactment of mandatory front of package warning labels on Ultra-processed products and submit proposal to ministery of science and technology. PANAH will work with ministry in development of the proposal. Mr. Munawar Hussain, Country Coordinator for the Global Health Advocacy Incubator (GHAI), highlighted the economic and health costs of ultra-processed products. He explained that FOPWL is a threshold-based labeling system that alerts consumers to harmful ingredients like sugars, saturated fats, trans fats, sodium, and non-sugar sweeteners. “Globally, governments have adopted Front-of-Pack Labeling based on robust Nutrient Profile Models (NPMs) as an evidence-based strategy to combat dietary risks and NCDs,” he noted, citing WHO recommendations for FOPWL as part of a comprehensive policy framework. Sana Ullah Ghumman, General Secretary of PANAH, stressed the need for government commitment to public health over corporate interests. “The food and beverage industry misleads policymakers about the health risks of their products, prioritizing profits over public well-being. Strong government action, including the enactment of FOPWL, is essential to empower consumers and reduce the NCD burden,” he remarked. The dialogue concluded with a unanimous call for immediate implementation of Front-of-Pack Warning Labels and other policy measures to safeguard public health and reduce the prevalence of NCDs in Pakistan. The Pakistan Times Pakistan Times

اسلام آباد : پاکستان میں وبائی امراض میں خطرناک حد تک تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔جو سالانہ 60 فیصد سے زیادہ اموات کا سبب بن رہے ہیں۔ پاکستان اب ذیابیطس کے پھیلاؤ میں عالمی سطح پر پہلے نمبر پر ہے، ذیابیطس کے ساتھ رہنے والے بالغوں کی تعداد 2011 میں 6.3 ملین سے بڑھ کر 2024 میں 36 ملین تک پہنچ گئی، اس کے ساتھ ساتھ10لاکھ لوگ ابتدائی درجے کی زیابیطس میں مبتلاء ہیں۔ صرف ذیابیطس کی وجہ سے ملک میں روزانہ 1,100 سے زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔
پاکستان میں 2100سے زیادہ روزانہ کی اموات کا باعث بننے والی غیر متعدی بیماریوں میں خوراک کا ایک اہم کرادار ہے۔ میٹھے مشروبات اور الٹرا پروسیسڈ فوڈز کا زیادہ استعمال دل کی بیماریوں، ذیابیطس، موٹاپا اور دیگر غیر متعدی امراض میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ الٹرا پروسیسڈ فوڈز میں اس قسم کے کھانے آتے ہیں جو پروسیسنگ کے متعدد مراحل سے گزرتے ہیں جن میں اکثر صنعتی طریقوں کا استعمال اور مختلف اجزاء جیسے پریزرویٹوز،، رنگ، ایملسیفائر اور ذائقے شامل ہوتے ہیں۔ ان کھانوں میں چینی، نمک یا ٹرانس فیٹس کی مقدار ضرورت سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ الٹرا پراسیسڈ فوڈز کے استعمال میں کمی کے لیے دنیا کے بہت سے ممالک نے ان پر فرنٹ آف پیک وارننگ لیبلز لگوائے جن سے لوگوں میں صحت مند خوراک کے استعمال کے رحجان میں اضافہ ہوا۔ حکومت پاکستان کو بھی لوگوں کی صحت کو اپنی اولین ترجیع بناتے ہوئے الٹرا پراسیسڈ  فوڈز پر فرنٹ آف پیک وارننگ لیبلز لگانے چاہیے۔

ان خدشات کا اظہار پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ) اور وزارتِ صحت کے تعاون سے منعقدہ نیشنل ڈائیلاگ میں کیا گیا۔ وزارت کے دفتر میں منعقدہ اس تقریب کی صدارت وزیر اعظم کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر ملک مختار احمد بھرتھ نے کی اور اس میں ماہرین صحت، وزارت کے حکام، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، ڈاکٹر ملک مختار احمد بھرتھ نے بڑھتے ہوئے این سی ڈی کے بوجھ کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر کی فوری اطلاق کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پناہ کے مشکور ہیں کہ انہوں نے صحت کے ایک اہم مسئلے کی طرف نشاندہی کی ہے۔ میں یقین دہانی کرواتا ہوں کہ صحت کی وزارت اس اہم انسانی مسئلے سے نمبٹنے کے لیے پناہ کے ساتھ ہے۔

پناہ کے صدر میجر جنرل (ر) مسعود الرحمان کیانی نے غیر متعدی امراض میں ہونے والے اضافے میں غیر صحت مند خوراک بالخصوص الٹرا پروسیسڈ فوڈز کے مضر اثرات کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔ حکومت کو غیر صحت بخش کھانوں کے استعمال کو کم کرنے کے لیے فیصلہ کن پالیسی اقدامات کرنے ہوں گے۔ جس سے لوگوں کو صحت مند خوراک کے انتخاب میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ وزارت صحت نے ماضی میں بھی پناہ کے ساتھ مل کر کام کیا ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ اب بھی وہ الٹرا پراسیسڈ فوڈز پر فرنٹ آف پیک لیبلز لگانے کی پروپوزل وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو بھجوائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پناہ اس پروپوزل کی تیاری میں وزارت صحت کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔

منور حسین، کنٹری کوآرڈینیٹر برائے گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر (GHAI) نے الٹرا پروسیسڈ مصنوعات کے معاشی اور صحت پر ہونے والے اخراجات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا نے مضر صحت خوراک کے استعمال کو کم کرنے کے لیے جن پالیسیی آپشنز پر کام کیا ہے ان میں ان پر ٹیکسوں میں اضافہ، ان پر فرنٹ آف پیک وارننگ لیبلز لگانا، ان کی مارکیٹنگ پر پابندی اور انہیں تعلیمی اداروں سے ہٹانا شامل ہیں۔ آج ہم فرنٹ آف پیک وارننگ لیبلز کے حوالے سے بات کریں گے۔ دنیا کے بہت ممالک نے ان مضر صحت کھانوں پر فرنٹ آف پیک وارننگ لیبلز لگوائے جن سے لوگوں کو صحت مند خوراک کے انتخاب میں مدد ملی اور بیماریوں میں کمی ہوئی۔

پناہ کے جنرل سکریٹری ثناء اللہ گھمن نے حکومت پر زور دیا کہ وہ کارپوریٹ مفادات کی بجائے عوامی صحت کو ترجیع دیں۔ انہوں نے حکومت پاکستان پر زور دیا کے دنیا کے تجربات سے سیکھتے ہوئے ہمیں بھی الٹرا پراسیسڈ فوڈز پر فرنٹ آف پیک وارننگ لیبلز لگانے چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مضر صحت خوراک بنانے والی صعنت پالیسی سازوں کی گمراہ کرتی ہے اور غلط اعدادوشمار کے زریعے اپنی مصنوعات کو صحت مند ثابت کرتی ہے۔ پناہ وزارت صحت کی شکر گزار ہے کہ انہوں نے ماضی میں بھی پناہ کے ساتھ مل کر کام کیا اور آئندہ بھی ہم درخواست کرنے ہیں کہ پناہ اور وزارت صحت مل کر لوگوں کو بیماریوں سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

یہ ڈائیلاگ صحت عامہ کے تحفظ اور پاکستان میں این سی ڈی کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے فرنٹ آف پیک وارننگ لیبلز اور دیگر پالیسی اقدامات اُٹھانے کے متفقہ مطالبہ کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

 

Sub Editor: Ghufran