Thursday, December 19

پاکستان کا بین الاقوامی برادری سے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کا مطالبہ

*The Permanent Mission of Pakistan to the United Nations* *(Information Section)* ***** *Press Release* *At UNSC Meeting, Pakistan Calls for Decisive Action Against Terrorism in Afghanistan* *New York, June 21, 2024:* Pakistan has reiterated that the elimination of terrorism within and from Afghanistan remains the highest priority for the international community, Afghanistan's neighbors, and Afghanistan itself. Despite progress made by the Afghan Interim Government (AIG) in combating Daesh (ISKP), several other terrorist groups, including Al-Qaeda, TTP, ETIM, and IMU, continue to operate in Afghanistan. Pakistan urged the AIG to take effective and sustained action against these groups in compliance with several Security Council resolutions. During the UN Security Council meeting on Afghanistan today, Ambassador Munir Akram, the Permanent Representative of Pakistan to the UN, highlighted the dangers of allowing impunity for terrorist groups in Afghanistan. He emphasized that goals such as investment, social and economic development, and infrastructure projects cannot be achieved as long as these groups operate freely within and from Afghanistan. Ambassador Akram described the Tehreek-e-Taliban Pakistan (TTP) as the most direct and serious threat to Pakistan. He detailed the TTP's terrorist activities, which have resulted in hundreds of civilian and military casualties. He said the TTP has intensified its attacks, after acquiring sophisticated weapons. Despite Pakistan's repeated calls for the AIG to take decisive action against the TTP, including halting cross-border attacks, disarming fighters, and handing over terrorists, no significant action has been taken, he said. He said that the TTP safe havens near Pakistan's borders persist, and recent cross-border attacks have included one that killed several Chinese engineers working on the Dasu hydropower project. Ambassador Akram urged the UN Security Council to call on the AIG to sever its links with the TTP and its associates, prevent cross-border attacks against Pakistan, disarm TTP terrorists, and capture and hand over TTP leaders to Pakistan. Ambassador Munir Akram said that Pakistan continues to advocate for sustained engagement with the Afghan Interim authorities to help normalize the situation in Afghanistan. He said that the AIG's decision to participate in the Doha meeting at the end of this month represents a critical opportunity for constructive dialogue on all key issues related to Afghanistan. Ambassador Akram stressed the importance of having clear objectives for both the international community and the AIG. He said that as highlighted by the UN Special Coordinator on Afghanistan, addressing the major issues for normalization requires a realistic roadmap, outlining reciprocal steps by the AIG and the international community towards Afghanistan's normalization and integration into the global community. He reminded the international community of its obligation to assist the 23 million Afghans in urgent need of humanitarian aid. Unfortunately, the Afghanistan Humanitarian Needs and Response Plan has only received 16.2% of the necessary $3.06 billion for the targeted 17.3 million Afghans. Full funding from all possible sources is essential to meet these critical needs, he maintained, he said. Ambassador Munir Akram also termed the revival of the Afghan economy and finding pathways for sustained development as being equally important, a task which, he said, requires the restoration of the Afghan banking system, commercial activities, and private sector investment. Additionally, creating conditions for the release of Afghanistan’s frozen assets and their transfer to its Central Bank is crucial, he stated. Ambassador Akram said that planned infrastructure and regional connectivity projects must be initiated and expressed Pakistan’s commitment to expanding trade and economic relations with Afghanistan. He said that in March, Pakistan and the AIG signed a 9-point agreement on trade and transit issues to promote economic relations. The Pakistan UN Ambassador asked the AIG to take steps to meet its obligations in line with international law and established norms. He said that global concern remains over the restrictions imposed on women and girls in Afghanistan, which do not align with international law or Islamic tenets. Concluding the statement, Ambassador Akram said that Pakistan enjoys close bonds of ethnicity, history, faith, language, and culture with Afghanistan. Promoting peace, stability, and development in Afghanistan is a national compulsion for Pakistan. “We will continue to work at all levels—bilateral, regional, international, and with the UN—to achieve these objectives,” he declared. The Pakistan Timesپاکستان نے دوبارہ اس بات پر زور دیا ہے کہ افغانستان کے اندر اور باہر سے دہشت گردی کا خاتمہ بین الاقوامی برادری، افغانستان کے پڑوسی ممالک اور خود افغانستان کے لیے سب سے اہم ترجیح ہے۔

اگرچہ افغان عبوری حکومت (اے آئی جی) نے داعش (آئی ایس کے پی) کے خلاف جنگ میں کچھ پیش رفت کی ہے، لیکن القاعدہ، ٹی ٹی پی، ای ٹی آئی ایم، اور آئی ایم یو سمیت دیگر کئی دہشت گرد گروہ افغانستان میں اب بھی سرگرم ہیں۔

پاکستان نے افغان عبوری حکومت پر زور دیا کہ وہ ان گروپوں کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کی تعمیل میں موثر اور مسلسل کارروائی کرے۔

آج افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر منیر اکرم نے افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کو دی گئی چھوٹ (empunity) کے خطرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سرمایہ کاری، سماجی اور اقتصادی ترقی اور انفراسٹرکچر کے منصوبے اس وقت تک مکمل نہیں کیے جا سکتے جب تک یہ گروہ افغانستان کے اندر اور باہر سے آزادانہ طور پر کام کرتے رہیں۔

سفیر منیر اکرم نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پاکستان کے لیے براہ راست اور سب سے سنگین خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے ٹی ٹی پی کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی تفصیلات بیان کیں، جن کے نتیجے میں سینکڑوں شہری اور فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی نے جدید ہتھیاروں کے حصول کے بعد اپنے حملے تیز کر دیے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے افغان عبوری حکومت سے بار بار مطالبہ کرنے کے باوجود کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے، جس میں سرحد پار حملوں کو روکنا، جنگجوؤں کو غیر مسلح کرنا، اور دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنا شامل ہے، کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سرحدوں کے قریب ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں اور حالیہ سرحد پار حملوں میں ایک حملہ بھی شامل ہے جس میں داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام کرنے والے کئی چینی انجینئر ہلاک ہوئے۔

سفیر منیر اکرم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان عبوری حکومت سے ٹی ٹی پی اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ روابط منقطع کرے، پاکستان کے خلاف سرحد پار حملے روکے، ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو غیر مسلح کرے، اور ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کو گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کرے۔

سفیر منیر اکرم نے کہا کہ پاکستان افغانستان کی صورتحال کو معمول پر لانے میں مدد کے لیے افغان عبوری حکام کے ساتھ مسلسل رابطے کی وکالت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مہینے کے آخر میں دوحہ اجلاس میں افغان عبوری حکومت کی شرکت کا فیصلہ افغانستان سے متعلق تمام اہم امور پر تعمیری بات چیت کے لیے ایک اہم موقع ہے۔

سفیر منیر اکرم نے بین الاقوامی برادری اور افغان عبوری حکومت دونوں کے لیے واضح مقاصد رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ جیسا کہ اقوام متحدہ کے خصوصی کوآرڈینیٹر برائے افغانستان نے روشنی ڈالی، معمول پر لانے کے بڑے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک حقیقت پسندانہ روڈ میپ کی ضرورت ہے، جو افغان عبوری حکومت اور بین الاقوامی برادری کے درمیان افغانستان کی معمول پر لانے اور عالمی برادری میں اس کے انضمام کی طرف باہمی اقدامات کا خاکہ پیش کرے۔

انہوں نے عالمی برادری کو فوری انسانی امداد کی ضرورت میں 23 ملین افغانوں کی مدد کرنے کے اپنے فرض کی یاد دلائی۔ افسوس کے ساتھ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی انسانی ضروریات اور ردعمل کے منصوبے کو مطلوبہ 3.06 بلین ڈالر میں سے صرف 16.2 فیصد فنڈنگ ​​ملی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان اہم ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تمام ممکنہ ذرائع سے مکمل فنڈنگ ​​ضروری ہے۔

سفیر منیر اکرم نے افغان معیشت کی بحالی اور پائیدار ترقی کے راستے تلاش کرنے کو بھی یکساں اہم قرار دیا، یہ ایک ایسا کام ہے جس کے لیے، انہوں نے کہا، افغان بینکنگ سسٹم، تجارتی سرگرمیوں، اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی بحالی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے منجمد اثاثوں کی رہائی اور ان کی مرکزی بینک میں منتقلی کے لیے حالات پیدا کرنا بھی بہت اہم ہے۔

سفیر اکرم نے کہا کہ منصوبہ بند انفراسٹرکچر اور علاقائی رابطہ منصوبے شروع کیے جانے چاہئیں اور افغانستان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے کے لیے پاکستان کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ مارچ میں پاکستان اور افغان عبوری حکومت نے تجارتی اور ٹرانزٹ کے مسائل پر اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے 9 نکاتی معاہدے پر دستخط کیے۔

پاکستان کے اقوام متحدہ کے سفیر نے افغان عبوری حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی قانون اور قائم شدہ اصولوں کے مطابق اپنے فرائض کو پورا کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں پر عائد پابندیوں پر عالمی تشویش برقرار ہے، جو بین الاقوامی قانون یا اسلامی اصولوں کے مطابق نہیں ہیں۔

بیان کے اختتام پر، سفیرمنیراکرم نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ نسلی، تاریخی، مذہبی، لسانی اور ثقافتی قریبی تعلقات رکھتا ہے۔ افغانستان میں امن، استحکام اور ترقی کو فروغ دینا پاکستان کے لیے ایک قومی ضرورت ہے۔

“ہم ان مقاصد کے حصول کے لیے تمام سطحوں پر دو طرفہ، علاقائی، بین الاقوامی، اور اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے،” انہوں نے اعلان کیا۔

Editor: Kamran Raja