پاکستان نے دوبارہ اس بات پر زور دیا ہے کہ افغانستان کے اندر اور باہر سے دہشت گردی کا خاتمہ بین الاقوامی برادری، افغانستان کے پڑوسی ممالک اور خود افغانستان کے لیے سب سے اہم ترجیح ہے۔
اگرچہ افغان عبوری حکومت (اے آئی جی) نے داعش (آئی ایس کے پی) کے خلاف جنگ میں کچھ پیش رفت کی ہے، لیکن القاعدہ، ٹی ٹی پی، ای ٹی آئی ایم، اور آئی ایم یو سمیت دیگر کئی دہشت گرد گروہ افغانستان میں اب بھی سرگرم ہیں۔
پاکستان نے افغان عبوری حکومت پر زور دیا کہ وہ ان گروپوں کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کی تعمیل میں موثر اور مسلسل کارروائی کرے۔
آج افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر منیر اکرم نے افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کو دی گئی چھوٹ (empunity) کے خطرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سرمایہ کاری، سماجی اور اقتصادی ترقی اور انفراسٹرکچر کے منصوبے اس وقت تک مکمل نہیں کیے جا سکتے جب تک یہ گروہ افغانستان کے اندر اور باہر سے آزادانہ طور پر کام کرتے رہیں۔
سفیر منیر اکرم نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پاکستان کے لیے براہ راست اور سب سے سنگین خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے ٹی ٹی پی کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی تفصیلات بیان کیں، جن کے نتیجے میں سینکڑوں شہری اور فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی نے جدید ہتھیاروں کے حصول کے بعد اپنے حملے تیز کر دیے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے افغان عبوری حکومت سے بار بار مطالبہ کرنے کے باوجود کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے، جس میں سرحد پار حملوں کو روکنا، جنگجوؤں کو غیر مسلح کرنا، اور دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنا شامل ہے، کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سرحدوں کے قریب ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں اور حالیہ سرحد پار حملوں میں ایک حملہ بھی شامل ہے جس میں داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام کرنے والے کئی چینی انجینئر ہلاک ہوئے۔
سفیر منیر اکرم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان عبوری حکومت سے ٹی ٹی پی اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ روابط منقطع کرے، پاکستان کے خلاف سرحد پار حملے روکے، ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو غیر مسلح کرے، اور ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کو گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کرے۔
سفیر منیر اکرم نے کہا کہ پاکستان افغانستان کی صورتحال کو معمول پر لانے میں مدد کے لیے افغان عبوری حکام کے ساتھ مسلسل رابطے کی وکالت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مہینے کے آخر میں دوحہ اجلاس میں افغان عبوری حکومت کی شرکت کا فیصلہ افغانستان سے متعلق تمام اہم امور پر تعمیری بات چیت کے لیے ایک اہم موقع ہے۔
سفیر منیر اکرم نے بین الاقوامی برادری اور افغان عبوری حکومت دونوں کے لیے واضح مقاصد رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ جیسا کہ اقوام متحدہ کے خصوصی کوآرڈینیٹر برائے افغانستان نے روشنی ڈالی، معمول پر لانے کے بڑے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک حقیقت پسندانہ روڈ میپ کی ضرورت ہے، جو افغان عبوری حکومت اور بین الاقوامی برادری کے درمیان افغانستان کی معمول پر لانے اور عالمی برادری میں اس کے انضمام کی طرف باہمی اقدامات کا خاکہ پیش کرے۔
انہوں نے عالمی برادری کو فوری انسانی امداد کی ضرورت میں 23 ملین افغانوں کی مدد کرنے کے اپنے فرض کی یاد دلائی۔ افسوس کے ساتھ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی انسانی ضروریات اور ردعمل کے منصوبے کو مطلوبہ 3.06 بلین ڈالر میں سے صرف 16.2 فیصد فنڈنگ ملی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان اہم ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تمام ممکنہ ذرائع سے مکمل فنڈنگ ضروری ہے۔
سفیر منیر اکرم نے افغان معیشت کی بحالی اور پائیدار ترقی کے راستے تلاش کرنے کو بھی یکساں اہم قرار دیا، یہ ایک ایسا کام ہے جس کے لیے، انہوں نے کہا، افغان بینکنگ سسٹم، تجارتی سرگرمیوں، اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی بحالی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے منجمد اثاثوں کی رہائی اور ان کی مرکزی بینک میں منتقلی کے لیے حالات پیدا کرنا بھی بہت اہم ہے۔
سفیر اکرم نے کہا کہ منصوبہ بند انفراسٹرکچر اور علاقائی رابطہ منصوبے شروع کیے جانے چاہئیں اور افغانستان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے کے لیے پاکستان کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ مارچ میں پاکستان اور افغان عبوری حکومت نے تجارتی اور ٹرانزٹ کے مسائل پر اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے 9 نکاتی معاہدے پر دستخط کیے۔
پاکستان کے اقوام متحدہ کے سفیر نے افغان عبوری حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی قانون اور قائم شدہ اصولوں کے مطابق اپنے فرائض کو پورا کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں پر عائد پابندیوں پر عالمی تشویش برقرار ہے، جو بین الاقوامی قانون یا اسلامی اصولوں کے مطابق نہیں ہیں۔
بیان کے اختتام پر، سفیرمنیراکرم نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ نسلی، تاریخی، مذہبی، لسانی اور ثقافتی قریبی تعلقات رکھتا ہے۔ افغانستان میں امن، استحکام اور ترقی کو فروغ دینا پاکستان کے لیے ایک قومی ضرورت ہے۔
“ہم ان مقاصد کے حصول کے لیے تمام سطحوں پر دو طرفہ، علاقائی، بین الاقوامی، اور اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے،” انہوں نے اعلان کیا۔
Editor: Kamran Raja