مصطفیٰ حیدر، ایگزیکٹو ڈائریکٹر پاک چائنا انسٹی ٹیوٹ کا خطاب کے دوران کہنا تھا۔ کہ پاکستان کو سی پی ای سی کے تحت سفر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ بہت سے ممالک بی آر آیٓ کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو بی آر آیٓ میں سی پیک کے تحت اپنی مسابقت پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں قابل تجدید توانائی میں کوئی بڑی سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ ہمیں چینیوں کے لیے فول پروف سیکیورٹی کا عملی جامہ پہنانا ہے۔ ہمیں آگے بڑھنے کے لیے ایک واضح فریم ورک اورمشترکہ ورکنگ گروپ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر عابد قیوم سلہری ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ڈی پی آئی کا خطاب کے دوران کہنا تھا کہ ہمیں مواقع کے ساتھ چیلنجوں پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے آگے کا راستہ دونوں قوموں کی بھلائی کے لیے اس چیلنج کا انتظار کرنا ہے۔
تجارت کے لیے نظر ثانی شدہ نظام ایک اور چیلنج ہے جبکہ کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکانزم اس سے گزرتا ہے. یورپی یونین نے کاربن کے اخراج کی رپورٹ طلب کی اور اپنا منصوبہ تیار کیا۔ امریکہ، چین اس پر کام کر رہے ہیں۔ اپنے کاربن کے اخراج کو دستاویز بنانے پر کام کرنا ہے. ہمیں برآمدات کی سپلائی چین کی مختلف سطحوں پر انوینٹری کی ضرورت ہے اور ہمارے پاس اس صلاحیت کی کمی ہے. کاربن کے اخراج کی تصدیق کے لیے سرٹیفیکیشن ہونا ضروری ہے۔ کاربن کے اخراج پیداوار اور کاروبار کے روایتی طریقوں کو تبدیل کرنا ہے۔ تیسرا چیلنج چائنا گرین انرجی ٹرانزیشن ٹیکنالوجی پر ٹیرف میں اضافہ ہے۔ یورپی یونین ۔ پاکستان اور چین ان ٹیکنالوجیز کو دو طرفہ طور پر فروغ دے سکتے ہیں. ہمیں گرین بانڈز اور فنانسنگ کے لیے سوچنا چاہیے تاکہ گرین ٹرانزیشن کو پائیدار طریقے سے منظم کیا جا سکے۔
منیجنگ ڈائریکٹر پی پی آئی بی شاہ جہاں مرزا نے کہا کہ سی پیک کے پہلے مرحلہ میں ہمیں بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا تھا ۔ ہمارے پاس اس سے نمٹنے کا کوئی متبادل نہ تھا، ہمیں بالاخر کویلے کی طرف جانا پڑا ۔ روس اور یوکراین جنگ نے ہمارے توانائی کےمسایل میں اضافہ کیا۔ اب ہمارے پاس بنیادی ڈھانچہ موجود ہے اور ہم زی پیک کے دوسرے مرحلہ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہم نے یہ سبق سیکھا ہے کہ ہمیں ہر شعبہ کی طرف توجہ دینا ہو گی
Editor: kamran Raja