نیویارک 18 ستمبر 2024:* پاکستان نے دنیا کو افغانستان کے اندر اور وہاں سے پیدا ہونے والی سنگین دہشت گردی کے خطرے سے خبردار کیا ہے، اور کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے مانیٹرنگ ٹیم کی 34ویں رپورٹ نے افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کے تشویشناک پہلوؤں پر کافی روشنی ڈالی ہے۔ پاکستان کے مستقل مندوب برائے اقوام متحدہ، سفیر منیر اکرم نے یہ باتیں آج افغانستان کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اپنے بیان کے دوران کہیں۔ سفیر منیر اکرم نے ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان)، جسے پاکستان میں فتنہ الخوارج کہا جاتا ہے، کو افغانستان میں سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم قرار دیا، جو افغان عبوری حکومت (AIG) کی مکمل حمایت اور تحفظ کے ساتھ پاکستان پر روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردانہ حملے کر رہی ہے اور اسے پاکستان کے اہم مخالف کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ ٹی ٹی پی کے علاقائی عدم استحکام کے امکانات کی نشاندہی کرتے ہوئے، سفیر منیر اکرم نے کہا کہ یہ دہشت گرد گروپ تیزی سے ایک Umbrella Organisation بن رہا ہے جو اب مجید بریگیڈ جیسے علیحدگی پسند گروہوں کے ساتھ رابطہ کر رہا ہے۔ “اور چونکہ اس کا القاعدہ کے ساتھ طویل عرصے سے تعلق رہا ہے، اس میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ ٹی ٹی پی القاعدہ کے علاقائی اور عالمی دہشت گردی کے اہداف کے لیے سرخیل بن جائے،” سفیر منیراکرم نے خبردار کیا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کو اس خطرے سے فکر مند ہونا چاہیے جو ایک مضبوط ٹی ٹی پی سے بہت زیادہ دور نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ ٹی ٹی پی کے خطرے کو ختم کیا جا سکے اور اس دہشت گرد تنظیم کے خلاف قومی سطح پر کارروائی کرتا رہے گا۔ سفیر منیر اکرم نے افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے پاکستان کے عزم کی دوبارہ توثیق کی، جو کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور بین الاقوامی برادری کی وسیع سیاسی شمولیت کی مشترکہ امنگوں کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا پختہ یقین ہے کہ ایسی شمولیت افغانستان میں استحکام اور معمول کی بحالی کے امکانات کو بڑھانے کے لیے ناگزیر ہے۔ تاہم، پاکستان کے مستقل مندوب نے افغان عبوری حکومت (AIG) کی جانب سے انسانی حقوق کی جاری خلاف ورزیوں، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے خلاف کارروائیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ ”AIG نے نہ صرف خواتین اور لڑکیوں سے متعلق اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹنے کا انتخاب کیا ہے، بلکہ نئے احکامات جاری کرکے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے، جن کا مقصد ان کی آوازوں کو دبانا ہے،” انہوں نے کہا۔ سفیر اکرم نے کہا کہ پاکستان ان اقدامات کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پسماندہ اقدامات ہمارے روشن خیال مذہب کی اصل روح کی خلاف ورزی ہیں، جو مردوں اور عورتوں دونوں کے مساوی حقوق کو تسلیم کرنے والا پہلا مذہب تھا۔ سفیر نے کہا کہ اگرچہ ہم طالبان حکومت کے ساتھ تعمیری رابطے کے لیے پرعزم ہیں، لیکن یہ واضح ہے کہ طالبان حکومت کو علاقائی اور بین الاقوامی حرکیات(Dynamics) کا فائدہ اٹھا کر اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
انہوں نے افغانستان میں جاری انسانی بحران پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے تین سال بعد بھی 23.7 ملین افغان عوام کو فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے، اور پاکستان بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بغیر کسی شرط کے امداد فراہم کرے۔ افغانستان کی انسانی ضروریات اور ردعمل کے منصوبے کے لیے 3.06 بلین ڈالر کی امداد کی ضرورت ہے، لیکن اب تک اس منصوبے کو مطلوبہ فنڈز کا %25 سے بھی کم ملا ہے، انہوں نے کہا۔ “اس منصوبے کے مکمل فنڈنگ کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے،” پاکستانی مستقل نمائندے نے زور دیا۔ “افغان عوام کی مصیبتوں کو کم کرنے کے لیے تمام ممکنہ ذرائع سے فنڈز کو متحرک کرنا ضروری ہے۔”
انسانی بحران کے علاوہ، سفیر اکرم نے افغانستان کی معاشی بحالی کے لیے پاکستان کی حمایت کا اعادہ کیا، جس میں افغان بینکنگ نظام کو دوبارہ فعال کرنے، نقدی بحران (Liquidity Crisis) کو حل کرنے، اور افغانستان کے قومی ذخائر کو غیر منجمد کرنے کے لیے ضروری حالات پیدا کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
“پاکستان افغانستان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو بڑھانے کے لیے پرعزم ہے اور خطے میں اقتصادی استحکام اور ترقی کو بڑھانے والے علاقائی انفراسٹرکچر اور کنیکٹیویٹی (Connectivity)کے منصوبوں کو نافذ کرنے کا ایک کلیدی شراکت دار رہے گا،” انہوں نے مزید کہا پاکستان کے مستقل مندوب نے AIG سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی پابندی کرے، اور متنبہ کیا کہ وہ پالیسیاں جو اندرونی، علاقائی اور عالمی عدم استحکام کا باعث بن رہی ہیں، انہیں مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ سفیر اکرم نے تجویز پیش کی کہ بین الاقوامی برادری افغانستان کے حوالے سے اپنے مقاصد کو نظر انداز نہ کرے۔ طالبان کے ساتھ رابطے کا ایک واضح مقصد ہونا چاہیے۔ ہمیں ان اقدامات کا تعین کرنا چاہیے جو افغانستان میں معمول کی بحالی کے لیے ضروری ہیں اور عالمی برادری کا حصہ بننے کے لیے اس کے انضمام کی طرف کام کرنا چاہیے،” انہوں نے زور دیا۔ سفیر منیر اکرم نے کہا کہ اس مقصد کے لیے پاکستان تجویز کرتا ہے کہ بین الاقوامی برادری سیکرٹری جنرل کے خصوصی رابطہ کار، سفیر فریدون سنیرلیوغلو کی سفارشات کو مدنظر رکھے۔ انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ میں باہمی اقدامات کا روڈ میپ پیش کیا گیا ہے، جس میں انسداد دہشت گردی، انسانی حقوق، سیاسی شمولیت، اقتصادی بحالی، پابندیوں میں نرمی، اور سیاسی شناخت پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
Sub Editor: Ghufran