جمعرات کو، گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر (GHAI) نے اپنی رپورٹ ”سویٹڈ پرافٹس: دی انڈسٹریز پلے بک ٹو فائٹ سویٹینڈ بیوریج ٹیکسز” جاری کی جس میں مشروبات کی صنعت کی میٹھے مشروبات پر ٹیکسوں کی مخالفت کرنے کی عالمی مہم کو بے نقاب کیا گیا۔ اس رپورٹ میں گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکوبیٹر نے 25 سے زائد ممالک میں میٹھے مشروبات پر ٹیکسوں کو روکنے کے لیے بگ سوڈا کی جانب سے استعمال کی گئی پانچ حکمت عملیوں کی نشاندہی کی ہے، جن میں ٹیکس ڈیزائن میں ہیرا پھیری، قانونی چیلنجز کو بڑھانا، سائنسی شواہد کوجھٹلانا، معاشی نقصان کا واویلا اور سماجی خدشات کا استحصال کرنا شامل ہیں۔
رپورٹ میں پالیسی سازوں، سول سوسائٹی اورمائرین صحت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مضبوط، شواہد پر مبنی ٹیکس ڈیزائن کے ساتھ ان ہتھکنڈوں کی نشاند ہی کریں اور ان کا مقابلہ کریں جو صنعت کے منافع پر عوامی صحت کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (PANAH) کے سیکرٹری جنرل جناب ثناء اللہ گھمن نے سول سوسائٹی سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے صحت عامہ کے چیلنجز کے تناظر میں اس رپورٹ کی اہمیت پر زور دیا۔ ”دل کی بیماری اور ذیابیطس سمیت NCDs میں اضافے کی وجہ سے اب وقت آگیا ہے کہ ان بیماریوں میں کمی کے لیے حتمی قانون سازی کی جائے۔ یہ رپورٹ واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح مشروبات کی صنعت صحت عامہ پر منافع کو ترجیح دے رہی ہے، ٹیکسوں کے نفاذ کو روکنے کے لیے خفیہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے جو بیماریوں اور اموات میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔
رپورٹ میں پالیسی سازوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ صحت عامہ کو ترجیح دیتے ہوئے میٹھے مشروبات کے ٹیکسوں میں اضافہ کریں۔ پناہ اس حکمت عملی کی حمایت کرتی ہے کہ پاکستان میں میٹھے مشروبات کے استعمال کو کم کرنے اور بالآخر بیماریوں کے بوجھ کو کم کرنے میں میٹھے مشروبات پر ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے۔ ثناء اللہ گھمن نے مزید کہا کہ ہم پاکستان میں پالیسی سازوں، سول سوسائٹی اورمائرین صحت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان انڈسٹری کی ان حکمت عملیوں کے خلاف ثابت قدم رہیں اور میٹھے مشروبات پر ٹیکسوں میں اضافے کی حمایت کریں جو دنیا بھر میں بیماریوں میں کمی کے لیے ایک ثابت شدہ حکمت عملی ہے”
پاکستان میں صحت عامہ کے ایک سرکردہ وکیل کے طور پرپناہ قوم کی صحت کے تحفظ کے لیے پالیسیوں کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔ مائرین صحت اور پالیسی میکرز کو اس رپورٹ کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ وہ انڈسٹری کے ان ہتھکنڈوں کو جان سکیں۔
Sub Editor: Ghufran